مہر خبررساں ایجنسی نےامریکی جریدہ”فارن پالیسی“ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکی جریدہ فارن پالیسی کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے روزانہ 700افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ ہلاکتوں کے یہ اعدادوشمار دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں، پاکستان میں یومیہ 39افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی کی رپورٹ میں کہا گیاکہ افغانستان کی 45 فیصد منشیات پاکستان سے گزرتی ہے۔ لہذا 67لاکھ پاکستانی جو منشیات کے عادی ہیں یا اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں ،انہیں اس منشیات تک رسائی بہت آسان ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشتگردی کے فنڈز کےلئے افغان طا لبان ڈرگز کی تجارت کرتے ہیں، افغانستان میں منشیات کی پیداوار سے 70ارب ڈالر کی آمدنی مختلف مافیاز اور دہشتگرد گروپوں کے پاس جاتی ہے اس آمدنی سے 2 ارب ڈالر تحریک طالبان پاکستان کو ملتے ہیں،کراچی میں بھی وہابی دہشت گرد تنظیم طالبان کے جرائم پیشہ افراداور گینگز سے رابطےہیں۔بلوچ علیحدگی پسند بھی دہشتگردی کے لئےمنشیات سے ہونیوالی آمدنی کو استعمال کرتے ہیں ۔پاکستان میں ابھی تک منشیات کی غیر قانونی تجارت اور دہشتگردی کے درمیان خطرناک گٹھ جوڑ سے چند لوگ ہی واقف ہیں۔تاہم پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ہفتے اس خطرناک گٹھ جوڑ کو توڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا خطرہ اکثر دہشتگردی کو سمجھا جاتا ہے جب کہ سب سے بڑا خطرہ جس پر ابھی تک کم توجہ دی گئی ہے، وہ پاکستا ن کےلئے منشیات کا خطرہ ہے۔افیون کی 85 فیصد پیداوار کے ساتھ افغانستان دنیا بھر میں پہلے ہی سرفہرست ہے تاہم حال ہی میں یہ پیداوار ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ منشیات کی اسمگلنگ اور مختلف جرائم نے افغانستان اور پاکستان کے خطے کو انتہائی کمزورکردیا ہے یہی کمزوری منشیات فروشوں اور عادیوں کوآسان رسائی فراہم کرتی ہے اسی وجہ سے پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان طالبان کے مختلف گروہ ڈرگ مافیاز کے روپ دھار چکے ہیں،وہ مالی فوائد اور دہشتگردانہ کارروائیوںکیلئے افیون اور ہیروئن کا استعمال کرتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان منشیات اور دہشتگردی کے درمیان تعلق کوتسلیم کرتے ہوئے منشیات کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس کے باوجود، پاکستان کےکچھ رہنما اور حکام منشیات اور دہشتگردی کے گٹھ جوڑ پر اتفاق نہیں کرتے۔ اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) اور کچھ وزارتوں کے عہدے داراس گٹھ جوڑ کی صریحاً تردید کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ افغان منشیات کی تجارت سے دہشتگردی کو فنڈنگ نہیں ہوتی۔ نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کے غالب بندیشہ کا کہنا تھا کہ منشیات کی مالی مدد سے ہونے والی دہشتگردی کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ۔ 2014 میں اے این ایف کے ایک سینئر عہدیدار نے منشیات کی رقم پاکستان بھیجے جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان طالبان سے مالی امداد نہیں لے رہی ۔ سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ سی آئی اے تحریک طالبان پاکستان کی مالی اعانت کےلئے منشیات کے پیسے کا استعمال کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو افغانستان سے منشیات اسمگلنگ سے نمٹنے میں پاکستان کو چیلنج کا سامنا ہے۔ ہلاکتوں کےحالیہ اعداد و شمار ایک چونکانے والی تصویر پیش کرتے ہیں۔امریکی حکام کے مطابق، تحریک طالبان پاکستان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ منشیات کی تجارت ہے۔منشیات کے اسمگلروں کے ساتھ قریبی روابط اور طالبان کی طرف سے ڈرگز پر عائد نام نہادٹیکس سے انہیں منشیات کی تیاری یا نقل و حمل کے بغیر منافع کا بھاری حصہ مل جاتا ہے ۔ 2009 میں ایک اندازے کے مطابق منشیات کی تجارت سے طالبان کی سالانہ ایک سو سے تین سو ملین ڈالر آمدنی تھی۔
امریکی جریدہ فارن پالیسی کے مطابق پاکستان میں منشیات کے استعمال کی وجہ سے روزانہ 700افراد ہلاک ہوتے ہیں۔
News ID 1857484
آپ کا تبصرہ